![]() |
روزیٹا سٹون |
1822ء میں ایک فرانسیسی ماہر لسانیات جین فران کوئش اس قابل ہوا کہ وہ اس پتھر پر رقم تحریر کا ترجمہ کر سکے۔ مختلف زبانوں کے تقابل سے تحریر کو سمجھنے میں مدد ملی۔
لاہور: (دنیا نیوز) وادی نیل کی سیر کرنے والا کوئی بھی سیاح قدیم مصری تہذیب کی شان و شوکت سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ فرعونوں نے بڑے بڑے اور بھاری پتھر استعمال کیے اور چونکہ آب و ہوا بھی خشک تھی اس لیے مجسمے اور عمارات زیادہ تر حوادث زمانہ سے محفوظ رہیں۔ 1798ء میں نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا۔ اس سے یورپی حکومتیں چوکنا اور خوفزدہ ہو گئی تھیں کیونکہ نپولین کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ اس کے حملے کا نشانہ برطانیہ کو تصور کیا جا رہا تھا۔ نپولین کے نزدیک برطانیہ کی بربادی کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ اس کے تجارتی راستے منقطع کر دیئے جائیں۔ اس کے علاوہ فرانس کے نزدیک یہ بہترین وقت تھا کہ وہ آرٹ اور ثقافت کے میدان میں ایک مرتبہ پھر یورپ میں رہنما ملک کی حیثیت اختیار کر لے۔ وادی نیل کے خزانے اس میں معاون ہو سکتے تھے۔ لہٰذا مصر پر حملے سے فرانس کے دو مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی۔ اول دنیا پر ثابت کر دیا جائے کہ فرانس وسیع ہو رہا ہے۔ دوم برطانیہ کے مشرق وسطیٰ کے ساتھ تجارتی راستے منقطع کیے جائیں۔ اس مقصد کے تحت سکندریہ تک کا فاصلہ بخوبی طے پا گیا تھا اور کوئی ناگوار واقعہ پیش نہ آیا تھا۔


دریائے نیل کے ڈیلٹا پر کیمپ لگائے گئے تھے۔ فرانس سے مصر کی قدیم تہذیب کے معروف 175 ماہرین بھی لائے گئے تھے اور ان لوگوں نے فوری طور پر اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ وہ آرٹ کے نمونے اکٹھے کر کے فرانس روانگی کا بندوبست کرنے لگے تھے۔ فرانسیسی قابض ہو چکے تھے اور مقامی لوگ ان کے سامنے بے بس تھے۔ فرانسیسی فوجی دستے اپنے کیمپوں کے نزدیک مختصر آرام سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سکندریہ سے تیس کلومیٹر دور ساحلی قصبے روزیٹا کے ایک مقام پر ایک نوجوان افسر جس کا نام بوسارڈ تھا، نے ایک قلعے کا معائنہ کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ یہ قلعہ ایک اچھی فوجی چوکی کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ حفاظت کے پیش نظر اس نے قلعے کے ساتھ ایک خندق کھودنے کا حکم دیا۔ وہ خیمے میں اونگھ رہا تھا کہ ایک سارجنٹ نے اسے آ کر جگایا اور خبر دی کہ خندق کی کھدائی کے دوران انہیں پتھر سے بنائی گئی ایک دیوار کا حصہ نظر آیا تھا۔ بوسارڈ دیوار دیکھنے چل پڑا۔ پھر اس نے اس دیوار کو گرانے کا حکم دیا۔ اس دوران اسے کوئی عجیب و غریب چیز نظر آئی۔ وہ فوری طور پر خندق میں کود گیا تا کہ مزید قریب سے اس کا مشاہدہ کر سکے۔ دیوار کا یہ حصہ تقریباً چھ فٹ اونچا تھا اور آٹھ یا نو فٹ لمبا تھا۔ اس کے درمیان میں پتھر کی ایک سل نصب تھی جس کی پیمائش تقریباً تین مربع فٹ تھی۔

![]() |
نپولین بونا پارٹ |
اس سل کے معائنے سے انکشاف ہوا کہ اس کو مہارت کے ساتھ دیوار میں بنایا گیا تھا۔ جب بوسارڈ نے اس کی سطح سے ریت صاف کی تو اسے یہ دیکھ کر ازحد حیرانی ہوئی کہ اس کی سطح بہترین پالش کی حامل تھی اور قدیم مصری تحریر (خط تصویری) سے مزین تھی۔ وہ قدیم مصری تہذیب کا ماہر نہ تھا لیکن غیر معمولی چیزوں کی اہمیت کی تربیت اسے دی گئی تھی۔ وہ سل نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ انہوں نے روزیٹا سٹون کو دریافت کر لیا تھا۔ یہ سل ایسا خزانہ تھی جس سے بڑھ کر کوئی خزانہ مصر دریافت نہ ہوا۔ کیونکہ یہ سل وہ چابی فراہم کرتی تھی جو فرعونوں کے ملک کی تاریخ کے دروازے کھولتی تھی۔ یہ سل تحریر کی حامل تھی جو تین مختلف اقسام کی تھی۔ اس کی نچلی سطح پر یونانی زبان میں تحریر تھی۔ درمیان میں مصری زبان میں تحریر تھی اور بالائی سطح پر خط تصویری تھا۔

![]() |
روزیٹا سٹون |
یہ وہ قدیم خط ہے جو حروف کی بجائے تصویروں کے ذریعے لکھا جاتا ہے جسے اس وقت تک پڑھا نہیں گیا تھا۔ بوسارڈ نے اس پتھر کی دریافت کی رپورٹ فوری طور پر افسران بالا کو دی۔ لیکن انہوں نے ردعمل میں کافی سستی سے کام لیا۔ بالآخر بوسارڈ اپنی دریافت کے ساتھ سکندریہ پہنچا۔ اسے ایک کے بعد دوسرے افسر کے پاس جانا پڑا لیکن وہ اس کی دریافت سے متاثر نہ ہوئے۔ پھر ایک عمر رسیدہ کوتاہ قد شخص نے انکشاف کیا کہ پتھر کی سل پر رقم تحریر عظیم اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے۔ وہ اسے کمانڈر ان چیف کے پاس لے گیا۔ عمر رسیدہ شخص نے میز سامنے کی جانب کھینچ دی اور بوسارڈ کو اشارہ کیا کہ وہ اس سل کو اس میز پر رکھ دے۔ اس کے بعد اس شخص نے نپولین کو اس سل کی ممکنہ اہمیت کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بتایا۔ وہ شخص اپنے سر کو جنبش دیتا رہا اور مابعد اس نے حکم دیا ’’اس تحریر کی نقول یورپ کے ہر مفکر کو بھجوا دی جائے‘‘۔ اس کے بعد اس نے بوسارڈ سے مخاطب ہو کر کہا کہ نوجوان تم نے ایک اچھا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ جب تمہاری اس دریافت کی حقیقی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جائے گا تب تمہیں گراں قدر انعام سے نوازا جائے گا۔


اس دوران فرانس ان علاقوں میں لڑائی لڑتا رہا جس میں بوسارڈ اور اس کا یونٹ بھی شریک رہا اور طویل عرصہ اس نے انعام کی امید لگائے رکھی۔ ان دنوں تار کا نظام موجود نہیں تھا اور مواصلاتی نظام سست روی کا شکار تھا۔ لہذا نہ ہی بوسارڈ اور نہ ہی ماہرین یہ جانتے تھے کہ روزیٹا سٹون کی تحریر کی جو نقول انہوں نے یورپی ماہرین کو بھجوائی تھیں ان کا کیا بنا۔ نئی صدی کی عمر بمشکل ایک برس تھی کہ برطانیہ نے نیل کے ڈیلٹا پر چڑھائی کی، انہوں نے فرانسیسی فوج کو قیدی بنا لیا اور فرانسیسی غلبے کا آخری نشان بھی مٹا ڈالا۔ ان قیدیوں میں بوسارڈ بھی شامل تھا۔ جب انگلستان پہنچنے پر اس سے روزیٹا سٹون کی دریافت کے بارے میں سوالات کیے گئے تو اس نے ان کے درست جوابات دیئے مگر اسے واپس جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ جیل میں لمبے دورانیے تک رہا۔
![]() |
روزیٹا سٹون |
برطانیہ نے ان تمام خزانوں اور نوادرات پر قبضہ کر لیا جو فرانس نے مصر میں اکٹھے کیے تھے۔ وہ روزیٹا سٹون میں گہری دلچسپی لے رہے تھے جس کو برطانوی عجائب گھر کی زینت بنا دیا گیا تھا۔ تھامس ینگ ان کا مطالعہ سرانجام دے رہا تھا۔ روزیٹا سٹون پر کام مشکل اور سست رو ثابت ہوا۔ 1822ء میں ایک فرانسیسی ماہر لسانیات جین فران کوئش اس قابل ہوا کہ وہ اس پتھر پر رقم تحریر کا ترجمہ کر سکے۔ مختلف زبانوں کے تقابل سے تحریر کو سمجھنے میں مدد ملی۔ اگلے دس برسوں کے دوران اس نے مصری زبان کی گرائمر اور ڈکشنری تیار کر لی اور یوں ایک ہزار برس بعد قدیم مصریوں کے الفاظ دوبارہ پڑھے گئے اور دنیا کے عظیم لوگوں کی زندگیوں کا انکشاف ہوا۔
Last Updated On 28 August,2017 06:22 pm
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں