افاعیل تفاعیل
(تحریر : عبدالسلام)
1- عرض و معروض
جو اردو جانتا ہے وہ شعری ذوق بھی رکھتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ذوق کسی میں کم ہوتا ہے کسی میں زیادہ۔ اور کسی میں اتنا زیادہ کہ وہ شاعر بن جاتا ہے۔ اردو جیسی بہت کم زبانیں ایسی ہونگی جن کا بولنے والا، چاہے ان پڑھ ہی کیوں نہ ہویا اردو خط سے نابلدہی کیوں نہ ہو، اپنی گفتار میں ایک دو شعر نہ لے آتا ہو۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اصل شعر کو کسی قدر تبدیلی کے ساتھ حسبِ مطلب پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً غالب نے تو کہا تھا ؎
عاشقوں کی کمی نہیں غالبؔ/ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ مگرکتنے ہی لوگ اپنی بات کو وزن دار بنا نے کے لئے اس شعر کو نہ صرف سنداً پیش کرتے ہیں بلکہ عاشقوں کی جگہ کوئی اور لفظ استعمال کر لیتے ہیں جس سے ان کا ما فی الضمیر بخوبی ادا ہو سکے، جیسے احمقوں، پاگلوں، بے سُروں، شاعروں وغیرہ وغیرہ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو میں نے بیان کردی یعنی ذوقِ شعری جو فطری طور پراہلِ اردو میں جاں گزیں ہوتا ہے۔ دوسری اہم وجہ ہے وزن۔ جو شعر موزوں ہوتا ہے یعنی جس میں وزن ہوتا ہے، وہ حافظے میں آسانی سے سماجاتا ہے۔ ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد مل جائیں گے جنھیں ان گنت اشعار یاد ہیں حالانکہ وہ خود شعر کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کیوں نہیں؟ یہ الگ موضوعِ بحث ہے۔ بس اسی سے سمجھ لیجئے کہ میرے ایک بزرگ شناسا تھے جو اردو کے پروفیسر تھے، شاعری کے بہت اچھے نقاد بھی اور سینکڑوں اشعار انھیں از بر تھے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آپ خود شاعری کیوں نہیں کرتے تو انھوں نے جواب دیا کہ شاعری کے لئے تخلیقی وجدان کا ہونا ضروری ہے۔ مجھ میں یہ خصوصیت نہیں ہے۔ میں کسی بھی شعر کے محاسن اور معائب گِنا سکتا ہوں مگر ایک شعر بھی موزوں نہیں کرسکتا۔ یہ تو خیر جملۂ معترضہ تھا بات وزن کی ہو رہی ہے۔
موزوں شعر کہنے کے لئے وزن کی تکنیک یعنی علم العروض جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے کئی شعرا کو میں جانتا ہوں جو علمِ عروض سے نابلد ہونے کے باوجود عموماً موزوں شعر کہتے ہیں اور اس پر خود اپنی پیٹھ تھپتھپا تے بھی ہیں۔ لیکن بعض اوقات کمی بیشی بھی نمایاں طور پر نظر آ جاتی ہے جو شاعر کی عروض سے لا علمی یا کم علمی کی غمازی کرجاتی ہے۔ آئے دن اخبارات و رسائل میں ایسا کلام پڑھنے کو ملتا ہے جن میں عروض کی غلطیاں صاف نظر آتی ہیں، کبھی غلط املاء کی وجہ سے، کبھی بحر سے ناواقفیت کی بنا پر۔ پھر بھی مدیر صاحبان انھیں نظر انداز کردیتے ہیں شاید یہ سوچ کر کہ اصلاح کرنا اُن کے فرائضِ منصبی میں شامل نہیں ہے۔
جس طرح موزوں شعر کہنے کے لئے علمِ عروض سے واقفیت ضروری نہیں ہوتی بالکل اسی طرح موزوں شعر سننے کے لئے بھی وزن کا علم لازمی نہیں ہوتا۔ کان خود ہی وزن کے زیر و بم سے آشنا ہوتے ہیں۔ جہاں ایک جز کی بھی کمی بیشی ہوئی وہاں مصرع کھٹکتا ہے اور کان کھڑے ہوجاتے ہیں، گویا چلتے چلتے ٹھوکر لگی ہو۔ سامع سے اگر کوئی پوچھے کہ کیا ہوا تو شاید اُس سے تفصیل بیان نہ ہوسکے مگر مصرع غیر موزوں ہے اس میں تو اُسے شک نہیں ہوتا۔ سامع کی بات تو خیر سمجھ میں آتی ہے لیکن جس نے شعر گوئی کو اپنا شعار بنایا ہو اُس کے لئے بہتر ہے کہ وزن کی چند بنیادی باتوں کو لازماً ذہن نشین کر لے تاکہ اُس کے شعر میں اگرکہیں روانی کھٹک رہی ہے تو دوسروں سے پہلے خود جان لے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے اور اُس کی درستگی کر لے۔ ایک فنکار اگر فن کا اتنا تقاضہ بھی پورا نہ کرسکے تو اُسے فنکار کیوں کر مانیں؟ اردو کے نامور اور معتبر شعرا میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو عروض سےبالکل ہی ناواقف ہوگا۔
اکثر لوگ علمِ عروض کا نام سنتے ہی کنی کاٹ جاتے ہیں۔ یا تو اس لئے کہ اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں یا اس لئے کہ یہ الجبرا کی طرح ثقل اور مشکل ہے۔ اگر کوئی سنجیدگی سے سیکھنے بیٹھے بھی تو اس کی عجیب و غریب اصطلاحات اور کلیے اس کے ذہن کو زچ کردیتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ مضمون کی ثقلیت کے ساتھ ساتھ ہماری عجلت پسندی اور آسان طلبی ہے۔ ظاہر ہے کہ عروض کوئی افسانہ یا ناول تو ہے نہیں کہ فر فر پڑھتے جاؤ، سمجھ میں بھی آجائیگا اور چند کردار اور واقعات ذہن نشین بھی ہوجائینگے۔
جب کسی علم کو سیکھنے کی نیت ہو تو چند باتوں کو واضح طور پر دماغ میں رکھنا ہوتا ہے۔ اول تو ہے غرض و غایت کہ اس علم کی مجھے کیا ضرورت ہے۔ دوسرے، اگر ضرورت ہے تو کس حد تک۔ جب یہ طے ہوجائے کہ اس علم کو کس لئے اور کسقدر حاصل کرنا ہے تو پھر ضروت ہوتی ہے سنجیدگی، یکسوئی اور استقلال کی۔ دیگر علوم کی طرح علمِ عروض بھی اکتسابی ہے یعنی محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ شاعری وجدانی ہو سکتی ہے، عروض نہیں۔ سچ پوچھئے تو عروض، ریاضی یا سائنس کی طرح، سکول/کالج میں سبقاً سبقاً سیکھنے کی چیز ہے۔ بصورتِ دیگر، کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا ہوگا۔ البتہ اگر کوئی اس علم کو کام چلاؤ کی حد تک حاصل کرنا چاہتا ہے تو کسی بھی عروض کی کتاب کا سرسری مطالعہ کافی ہے۔ بازار میں بیسیوں کتابیں دستیاب ہیں۔ کوئی بھی کتاب جس کی ضخامت کو چٹکی میں پکڑا جاسکے اس مقصد کے لئے بہت ہے۔
میرے اس رسالے کا مقصد بعینیہ یہی ہے۔ کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہوآسان طریقہ اپناؤں تاکہ قاری کا ذہن بوجھل نہ ہو جائے۔ عروض کی کتاب پڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھیں اور سمجھ کر پڑھیں۔ دوسرا باب شروع کرنے سے پہلے گذشتہ باب کا اعادہ کرلیں۔ ضرورت ہو توایک ہی باب بار بار پڑھیں۔ جو قاری صرف مبادیات سے واقف ہونا چاہے وہ ابتدا کے چند ابواب پڑھ لے اور کتاب رکھ دے۔ وہی آگے بڑھے جس کا تجسس اسے آگے بڑھنے پر اکسائے۔
جو اردو جانتا ہے وہ شعری ذوق بھی رکھتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ذوق کسی میں کم ہوتا ہے کسی میں زیادہ۔ اور کسی میں اتنا زیادہ کہ وہ شاعر بن جاتا ہے۔ اردو جیسی بہت کم زبانیں ایسی ہونگی جن کا بولنے والا، چاہے ان پڑھ ہی کیوں نہ ہویا اردو خط سے نابلدہی کیوں نہ ہو، اپنی گفتار میں ایک دو شعر نہ لے آتا ہو۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اصل شعر کو کسی قدر تبدیلی کے ساتھ حسبِ مطلب پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً غالب نے تو کہا تھا ؎
عاشقوں کی کمی نہیں غالبؔ/ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ مگرکتنے ہی لوگ اپنی بات کو وزن دار بنا نے کے لئے اس شعر کو نہ صرف سنداً پیش کرتے ہیں بلکہ عاشقوں کی جگہ کوئی اور لفظ استعمال کر لیتے ہیں جس سے ان کا ما فی الضمیر بخوبی ادا ہو سکے، جیسے احمقوں، پاگلوں، بے سُروں، شاعروں وغیرہ وغیرہ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو میں نے بیان کردی یعنی ذوقِ شعری جو فطری طور پراہلِ اردو میں جاں گزیں ہوتا ہے۔ دوسری اہم وجہ ہے وزن۔ جو شعر موزوں ہوتا ہے یعنی جس میں وزن ہوتا ہے، وہ حافظے میں آسانی سے سماجاتا ہے۔ ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد مل جائیں گے جنھیں ان گنت اشعار یاد ہیں حالانکہ وہ خود شعر کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کیوں نہیں؟ یہ الگ موضوعِ بحث ہے۔ بس اسی سے سمجھ لیجئے کہ میرے ایک بزرگ شناسا تھے جو اردو کے پروفیسر تھے، شاعری کے بہت اچھے نقاد بھی اور سینکڑوں اشعار انھیں از بر تھے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آپ خود شاعری کیوں نہیں کرتے تو انھوں نے جواب دیا کہ شاعری کے لئے تخلیقی وجدان کا ہونا ضروری ہے۔ مجھ میں یہ خصوصیت نہیں ہے۔ میں کسی بھی شعر کے محاسن اور معائب گِنا سکتا ہوں مگر ایک شعر بھی موزوں نہیں کرسکتا۔ یہ تو خیر جملۂ معترضہ تھا بات وزن کی ہو رہی ہے۔
موزوں شعر کہنے کے لئے وزن کی تکنیک یعنی علم العروض جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے کئی شعرا کو میں جانتا ہوں جو علمِ عروض سے نابلد ہونے کے باوجود عموماً موزوں شعر کہتے ہیں اور اس پر خود اپنی پیٹھ تھپتھپا تے بھی ہیں۔ لیکن بعض اوقات کمی بیشی بھی نمایاں طور پر نظر آ جاتی ہے جو شاعر کی عروض سے لا علمی یا کم علمی کی غمازی کرجاتی ہے۔ آئے دن اخبارات و رسائل میں ایسا کلام پڑھنے کو ملتا ہے جن میں عروض کی غلطیاں صاف نظر آتی ہیں، کبھی غلط املاء کی وجہ سے، کبھی بحر سے ناواقفیت کی بنا پر۔ پھر بھی مدیر صاحبان انھیں نظر انداز کردیتے ہیں شاید یہ سوچ کر کہ اصلاح کرنا اُن کے فرائضِ منصبی میں شامل نہیں ہے۔
جس طرح موزوں شعر کہنے کے لئے علمِ عروض سے واقفیت ضروری نہیں ہوتی بالکل اسی طرح موزوں شعر سننے کے لئے بھی وزن کا علم لازمی نہیں ہوتا۔ کان خود ہی وزن کے زیر و بم سے آشنا ہوتے ہیں۔ جہاں ایک جز کی بھی کمی بیشی ہوئی وہاں مصرع کھٹکتا ہے اور کان کھڑے ہوجاتے ہیں، گویا چلتے چلتے ٹھوکر لگی ہو۔ سامع سے اگر کوئی پوچھے کہ کیا ہوا تو شاید اُس سے تفصیل بیان نہ ہوسکے مگر مصرع غیر موزوں ہے اس میں تو اُسے شک نہیں ہوتا۔ سامع کی بات تو خیر سمجھ میں آتی ہے لیکن جس نے شعر گوئی کو اپنا شعار بنایا ہو اُس کے لئے بہتر ہے کہ وزن کی چند بنیادی باتوں کو لازماً ذہن نشین کر لے تاکہ اُس کے شعر میں اگرکہیں روانی کھٹک رہی ہے تو دوسروں سے پہلے خود جان لے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے اور اُس کی درستگی کر لے۔ ایک فنکار اگر فن کا اتنا تقاضہ بھی پورا نہ کرسکے تو اُسے فنکار کیوں کر مانیں؟ اردو کے نامور اور معتبر شعرا میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو عروض سےبالکل ہی ناواقف ہوگا۔
اکثر لوگ علمِ عروض کا نام سنتے ہی کنی کاٹ جاتے ہیں۔ یا تو اس لئے کہ اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں یا اس لئے کہ یہ الجبرا کی طرح ثقل اور مشکل ہے۔ اگر کوئی سنجیدگی سے سیکھنے بیٹھے بھی تو اس کی عجیب و غریب اصطلاحات اور کلیے اس کے ذہن کو زچ کردیتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ مضمون کی ثقلیت کے ساتھ ساتھ ہماری عجلت پسندی اور آسان طلبی ہے۔ ظاہر ہے کہ عروض کوئی افسانہ یا ناول تو ہے نہیں کہ فر فر پڑھتے جاؤ، سمجھ میں بھی آجائیگا اور چند کردار اور واقعات ذہن نشین بھی ہوجائینگے۔
جب کسی علم کو سیکھنے کی نیت ہو تو چند باتوں کو واضح طور پر دماغ میں رکھنا ہوتا ہے۔ اول تو ہے غرض و غایت کہ اس علم کی مجھے کیا ضرورت ہے۔ دوسرے، اگر ضرورت ہے تو کس حد تک۔ جب یہ طے ہوجائے کہ اس علم کو کس لئے اور کسقدر حاصل کرنا ہے تو پھر ضروت ہوتی ہے سنجیدگی، یکسوئی اور استقلال کی۔ دیگر علوم کی طرح علمِ عروض بھی اکتسابی ہے یعنی محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ شاعری وجدانی ہو سکتی ہے، عروض نہیں۔ سچ پوچھئے تو عروض، ریاضی یا سائنس کی طرح، سکول/کالج میں سبقاً سبقاً سیکھنے کی چیز ہے۔ بصورتِ دیگر، کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا ہوگا۔ البتہ اگر کوئی اس علم کو کام چلاؤ کی حد تک حاصل کرنا چاہتا ہے تو کسی بھی عروض کی کتاب کا سرسری مطالعہ کافی ہے۔ بازار میں بیسیوں کتابیں دستیاب ہیں۔ کوئی بھی کتاب جس کی ضخامت کو چٹکی میں پکڑا جاسکے اس مقصد کے لئے بہت ہے۔
میرے اس رسالے کا مقصد بعینیہ یہی ہے۔ کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہوآسان طریقہ اپناؤں تاکہ قاری کا ذہن بوجھل نہ ہو جائے۔ عروض کی کتاب پڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھیں اور سمجھ کر پڑھیں۔ دوسرا باب شروع کرنے سے پہلے گذشتہ باب کا اعادہ کرلیں۔ ضرورت ہو توایک ہی باب بار بار پڑھیں۔ جو قاری صرف مبادیات سے واقف ہونا چاہے وہ ابتدا کے چند ابواب پڑھ لے اور کتاب رکھ دے۔ وہی آگے بڑھے جس کا تجسس اسے آگے بڑھنے پر اکسائے۔
2- مختصرتاریخ
ابو عبدالرحمٰن خلیل ابنِ احمد بصری کو علم العروض کا موجد مانا جاتا ہے۔ یہ سن دو ہجری میں پیدا ہوا تھا اور عراق میں رہتا تھا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا خلیل ابنِ احمد سے پہلے عربی میں موزوں اشعار نہیں کہے جاتے تھے؟ جواب یہ ہے کہ یقیناً کہے جاتے تھے لیکن عروض کے موجودہ اصولوں کوسامنے رکھ کر نہیں کہے جاتے تھے۔ بلکہ آہنگ اور نغمگی کی بنیاد پر کہے جاتے تھے۔ عرب کی زیادہ تر آبادی بے حرف تھی۔ عرب عموناً لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ نے انھیں غضب کا حافظہ دیا تھا۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں اشعار یاد رکھتے تھے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ عروض کے تانے بانے انھیں ازبر رہے ہونگے مگرکبھی لکھ کرمحفوظ نہیں کیا۔ خلیل ابنِ احمد نے زمانۂ جاہلیت کی شاعری کو پرکھا، جانچا اور عروض کے اصول وضع کرنے میں اُس سے مدد لی۔ وہ ریاضی اور موسیقی کا بھی ماہر مانا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے سنسکرت اور یونانی زبانوں کی شاعری سے بھی استفادہ کیا تھا۔ واللہ اعلم۔ حتمی طور پر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ خلیل ابنِ احمد نے عروض کے اصول وضع کئے اور پندرہ بحریں ایجاد کیں۔ اِس اعتبار سے عروض کے اصولوں کو کسی نے کسی پریہ کہہ کر مسلط نہیں کیا ہے کہ تم شعر کہوگے تو انھی اصولوں کے تحت کہوگے ورنہ تمھاری شاعری موزوں نہیں مانی جائیگی۔ اصول تو پہلے سے خام مواد کی مانند موجود تھے البتہ ایک علم کی حیثیت سے مرتّب و مدوّن نہیں تھے۔ خلیل ابنِ احمد سے قبل اور زمانۂ جاہلیت کے چھ سات سو سالوں کی عربی شاعری میں موزوں کلام ملتا ہے جو آج کی مروجہ بحور پرعموماً پورا اترتا ہے۔ خود قرآنِ شریف میں ایسی کئی آیات مل جائینگی جنھیں موزوں کہا جاسکتا ہے۔ مشہور ہے کہ رباعی کے اوزان میں سے ایک وزن لا حول ولا قوۃ الا باللہ ہے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی موزوں ہے۔ اس مقام پر یہ وضاحت لازمی ہے کہ شعر کی ایک تعریف یہ ہے کہ یہ ایسا کلام ہے جو موزوں ہو، مقفیٰ ہو اور شعر کہنے کے ارادے سے کہا گیا ہو۔ البتہ شاعری اس ایک تعریف میں مقید نہیں ہے۔بیسوں مصنفوں نے بیسوں طرح سے شعر کی تعریف کی ہے۔ کسی نے کہا کہ تخیل کا مترنم پیرائے میں اظہار شاعری ہے۔ کئی ناقدین ترنم یا وزن کو شاعر کا لازمی جزو قرار نہیں دیتے۔ آج کل تو نثری نظم بھی رواج پارہی ہے اور اسے نثم کہا جانے لگا ہے۔ اس میں قافیے کی ضرورت ہے نہ وزن کی۔ بس تخیل اور اسلوب پر زور دیا جاتا ہے۔ لیکن کسی بھی تعریف کی رو سے قرآنِ شریف شاعری نہیں ہے کیونکہ اول تو اس کا مقصد شعر گوئی نہیں ہے اور دوسرے یہ شاعری کی کسی بھی تعریف سے بالا تر ہے۔
جب علمِ عروض ایرانیوں کے پاس آیا تو انھوں نے چار بحریں اور نکالیں۔ اس کا سہرا ابوالحسن اخفش، یوسف نیشاپوری اور مزید دوافراد کے سر باندھا جاتا ہے۔ کُل ملا کر یہی اُنیس سالم بحریں عربی، فارسی، اردو اور دیگرکئی زبانوں میں مروج ہیں۔ اِن میں بھی اردو میں مستعمل بحریں چودہ پندرہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اِنھی سالم بحروں میں زحاف یعنی کانٹ چھانٹ کے عمل سے بے شمار بحریں نکالی گئی ہیں جو شاعروں کے استعمال میں ہیں۔
علم العروض پر اولین معتبر کتابوں میں شمس الدین قیس رازی کی المعجم اور نصیرالدین طوسیؒ کی معیار الاشعارہیں جوعلی الترتیب ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں لکھی گئی تھیں۔ بعد کی تصنیفات انھی کے مضامین کو دہراتی ہیں۔
اردو میں مولوی نجم الغنی نجمی رامپوری کی کتاب بحر الفصاحت (جسکی پانچ فصلوں میں سے دوسری فصل عروض سے بحث کرتی ہے) سب سی بڑی، مستند اور معتبر کتاب ہے۔ اس کا تیسرا اڈیشن 1924ء کو چھپا تھا اور چوتھا اڈیشن 1956ء کو۔ اس کے بعد مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی چراغِ سخن ہے جو 1914ء میں شائع ہوئی تھی۔ چند اور مشہور اور قابلِ ذکر تصانیف کے اسماء حسبِ ذیل ہیں:
تفہیم العروض مصنف ڈاکٹر جمال الدین جمال، درسِ بلاغت زیرِ اہتمام ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی ترقی اردو بیورو، دہلی، میزانِ سخن مصنف حمید عظیم آبادی،عمدہ اردو عروض مصنف محمد زبیر فاروقی شوکت الہ آبادی اور آسان عروض اور نکاتِ شاعری مصنف سرور عالم راز سرور.
ابو عبدالرحمٰن خلیل ابنِ احمد بصری کو علم العروض کا موجد مانا جاتا ہے۔ یہ سن دو ہجری میں پیدا ہوا تھا اور عراق میں رہتا تھا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا خلیل ابنِ احمد سے پہلے عربی میں موزوں اشعار نہیں کہے جاتے تھے؟ جواب یہ ہے کہ یقیناً کہے جاتے تھے لیکن عروض کے موجودہ اصولوں کوسامنے رکھ کر نہیں کہے جاتے تھے۔ بلکہ آہنگ اور نغمگی کی بنیاد پر کہے جاتے تھے۔ عرب کی زیادہ تر آبادی بے حرف تھی۔ عرب عموناً لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ نے انھیں غضب کا حافظہ دیا تھا۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں اشعار یاد رکھتے تھے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ عروض کے تانے بانے انھیں ازبر رہے ہونگے مگرکبھی لکھ کرمحفوظ نہیں کیا۔ خلیل ابنِ احمد نے زمانۂ جاہلیت کی شاعری کو پرکھا، جانچا اور عروض کے اصول وضع کرنے میں اُس سے مدد لی۔ وہ ریاضی اور موسیقی کا بھی ماہر مانا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے سنسکرت اور یونانی زبانوں کی شاعری سے بھی استفادہ کیا تھا۔ واللہ اعلم۔ حتمی طور پر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ خلیل ابنِ احمد نے عروض کے اصول وضع کئے اور پندرہ بحریں ایجاد کیں۔ اِس اعتبار سے عروض کے اصولوں کو کسی نے کسی پریہ کہہ کر مسلط نہیں کیا ہے کہ تم شعر کہوگے تو انھی اصولوں کے تحت کہوگے ورنہ تمھاری شاعری موزوں نہیں مانی جائیگی۔ اصول تو پہلے سے خام مواد کی مانند موجود تھے البتہ ایک علم کی حیثیت سے مرتّب و مدوّن نہیں تھے۔ خلیل ابنِ احمد سے قبل اور زمانۂ جاہلیت کے چھ سات سو سالوں کی عربی شاعری میں موزوں کلام ملتا ہے جو آج کی مروجہ بحور پرعموماً پورا اترتا ہے۔ خود قرآنِ شریف میں ایسی کئی آیات مل جائینگی جنھیں موزوں کہا جاسکتا ہے۔ مشہور ہے کہ رباعی کے اوزان میں سے ایک وزن لا حول ولا قوۃ الا باللہ ہے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی موزوں ہے۔ اس مقام پر یہ وضاحت لازمی ہے کہ شعر کی ایک تعریف یہ ہے کہ یہ ایسا کلام ہے جو موزوں ہو، مقفیٰ ہو اور شعر کہنے کے ارادے سے کہا گیا ہو۔ البتہ شاعری اس ایک تعریف میں مقید نہیں ہے۔بیسوں مصنفوں نے بیسوں طرح سے شعر کی تعریف کی ہے۔ کسی نے کہا کہ تخیل کا مترنم پیرائے میں اظہار شاعری ہے۔ کئی ناقدین ترنم یا وزن کو شاعر کا لازمی جزو قرار نہیں دیتے۔ آج کل تو نثری نظم بھی رواج پارہی ہے اور اسے نثم کہا جانے لگا ہے۔ اس میں قافیے کی ضرورت ہے نہ وزن کی۔ بس تخیل اور اسلوب پر زور دیا جاتا ہے۔ لیکن کسی بھی تعریف کی رو سے قرآنِ شریف شاعری نہیں ہے کیونکہ اول تو اس کا مقصد شعر گوئی نہیں ہے اور دوسرے یہ شاعری کی کسی بھی تعریف سے بالا تر ہے۔
جب علمِ عروض ایرانیوں کے پاس آیا تو انھوں نے چار بحریں اور نکالیں۔ اس کا سہرا ابوالحسن اخفش، یوسف نیشاپوری اور مزید دوافراد کے سر باندھا جاتا ہے۔ کُل ملا کر یہی اُنیس سالم بحریں عربی، فارسی، اردو اور دیگرکئی زبانوں میں مروج ہیں۔ اِن میں بھی اردو میں مستعمل بحریں چودہ پندرہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اِنھی سالم بحروں میں زحاف یعنی کانٹ چھانٹ کے عمل سے بے شمار بحریں نکالی گئی ہیں جو شاعروں کے استعمال میں ہیں۔
علم العروض پر اولین معتبر کتابوں میں شمس الدین قیس رازی کی المعجم اور نصیرالدین طوسیؒ کی معیار الاشعارہیں جوعلی الترتیب ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں لکھی گئی تھیں۔ بعد کی تصنیفات انھی کے مضامین کو دہراتی ہیں۔
اردو میں مولوی نجم الغنی نجمی رامپوری کی کتاب بحر الفصاحت (جسکی پانچ فصلوں میں سے دوسری فصل عروض سے بحث کرتی ہے) سب سی بڑی، مستند اور معتبر کتاب ہے۔ اس کا تیسرا اڈیشن 1924ء کو چھپا تھا اور چوتھا اڈیشن 1956ء کو۔ اس کے بعد مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی چراغِ سخن ہے جو 1914ء میں شائع ہوئی تھی۔ چند اور مشہور اور قابلِ ذکر تصانیف کے اسماء حسبِ ذیل ہیں:
تفہیم العروض مصنف ڈاکٹر جمال الدین جمال، درسِ بلاغت زیرِ اہتمام ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی ترقی اردو بیورو، دہلی، میزانِ سخن مصنف حمید عظیم آبادی،عمدہ اردو عروض مصنف محمد زبیر فاروقی شوکت الہ آبادی اور آسان عروض اور نکاتِ شاعری مصنف سرور عالم راز سرور.
حرکات و سکنات
انگریزی اور دیگر کئی زبانوں کی شاعری میں وزن کا نظام سلیلبل (syllable)پرمبنی ہے۔ سلیبل کہتے ہیں تلفظ کی اس اکائی کو جس میں ایک مصوتہ (vowel)ہو۔ انگریزی میں A,E,I,O,U اور بعض جگہ Yمصوتے ہیں۔ (Uاور Yمصمتہ یعنی consonant کا کام بھی کرتے ہیں)۔ ہر مصمتے کے ساتھ کم سے کم ایک مصوتہ ہونا چاہیئے تبھی وہ لفظ اور سلیبل بنے گا جیسے AT ایک سلیبل ہے، THAT بھی ایک ہی سلیبل ہے۔ ایک لفظ میں جتنی بار مصوتوں کی آواز سنائی دیگی اُس لفظ میں اُتنے ہی سلیبل ہونگے۔ مثلاً LIGHTER میں دو مصوتے اور دو سلیبل ہیں جبکہ FIRE میں ایک سلیبل ہے کیونکہ اِس میں I کی آواز تو سنائی دیتی ہے Eکی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مزید، اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ مصوتے مصمتوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ اِس جوڑ کے بغیرنہ لفظ بن سکتے ہیں نہ سلیبل۔ یہی سلیبلس انگریزی اور کئی دیگر یوروپی زبانوں کی نظم کے میٹر کی بنیادیں ہیں۔ اِنھی کی بو قلموں تراتیب سے آہنگ پیدا کیا جاتا ہے۔ مختلف ترتیبوں کے باضابطہ اصول بنے ہوئے ہیں۔
میں نے انگریزی کی مثال اس لئے دی ہے تاکہ اردو کے نظامِ صوت کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔ مصمتہ کو حرفِ صحیح اور مصوتہ کو حرفِ علت بھی کہتے ہیں۔ آج کل موخرالذکراصطلاحات زیادہ رائج ہیں۔ اردو میں ا،و،ی اور ے حروفِ صحیح بھی ہیں اور حروفِ علت بھی۔ باقی سارے حروف صرف حروفِ صحیح ہیں۔ حروفِ صحیح کو جوڑنے کا کام حروفِ علت کرتے ہیں۔ ا، و ، ی اور ے کے علاوہ زیر، زبر، پیش اور جزم بھی حروفِ علت کا کام دیتے ہیں حالانکہ یہ حروفِ تہجی کا حصہ نہیں ہیں۔ انھیں مجموعی طور پراعراب کہا جاتا ہے اور فرداً فرداً کَسرہ (زیر ِ حرف کے نیچے)، فَتْح (زبر َ حرف کے اوپر)، ضُمّہ (پیش ُ یہ بھی حرف کے اوپر) اور سکون (جزم ْ بھی حرف کے اوپر) کہا جاتا ہے۔ جس حرف پر اِن میں سے کوئی ایک شکل ہو یا متصور ہو تو اس حرف کو علی الترتیب مکسور، مفتوح، مضموم اور ساکن کہتے ہیں۔ اِنھی کی طرح مد بھی علامتِ حرکت ہے اور صرف الف کے ساتھ آتا ہے۔ کھڑا زبر اور کھڑا زیر بھی اعراب ہیں۔ تشدید بھی علامتِ حرکت ہے کیونکہ یہ ایک ہی بار لکھے ہوئےحرف کو دو بار ادا کرنے کا اشارہ دیتا ہے جس میں پہلا ساکن اور دوسرا متحرک ہوتا ہے جیسے قصّہ، بلّی وغیرہ۔ اِن علامتوں کے بغیر اردو میں الفاظ نہیں بن سکتے۔ یہ علامتیں در اصل حرکتیں ہیں جو حلق سے کسی رکاوٹ کے بغیر ادا ہوتی ہیں اور کسی بھی حرفِ صحیح کو حرکت دیتی ہیں۔ ا لف کو ہم اَلِف اس لئے پڑھتے ہیں کہ ا کے اوپر زبر ہے، ل کے نیچے زیر ہے اور ف ساکن ہے۔ سکون حرکت کی ضد ہے، اسی لئے عروض میں علامتوں کے اس مجموعے کو حرکات و سکنات کہتے ہیں۔ اِنھی حرکات و سکنات سے لفظوں میں زیرو بم یعنی اُتار چڑھاؤ پیدا ہوتے ہیں اور یہی زیروبم وزن کی بنیادیں ہیں۔
الف پر مد ہو یعنی آ تو الف کو کھینچ کر پڑھا جاتا ہے جیسے آج۔ اگر صرف زبر ہو یعنی اَ تو کھینچ کر نہیں پڑھا جاتا بلکہ ایک جھٹکے کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے جیسے اَب۔ جسے کھینچ کر پڑھا جائے اُسے ہجائے بلند یا ہجائے طویل کہتے ہیں اور جسے کھینچ کر نہ پڑھا جائے اُسے ہجائے کوتاہ کہتے ہیں۔ آسانی کے لئے ہم ہجائے بلند کو بڑی آواز اور ہجائے کوتاہ کو چھوٹی آواز کہہ سکتے ہیں۔
وزن میں آ دو الف کے برابر ہے یعنی اس میں دوالف یعنی دو حروف ہیں جبکہ اَ میں ایک ہی الف ہے لہٰذا اس میں ایک ہی حرف ہے۔ اَب، دِن، گُل جیسے الفاظ دو حروف سے مل کر بنے ہیں۔ چنانچہ یہ آ کے برابر ہیں، بہ الفاظِ دگر،دو حروف سے مل کر بنے ہوئے الفاظ جن کا دوسرا حرف ساکن ہو،ہجائے بلند یعنی بڑی آواز کہلاتے ہیں۔ اردو میں ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہی ہوتا ہے۔ اس میں حرکت تبھی آتی ہےجب اس حرف کے نیچے کسرۂ اضافت ہوجیسے غمِ دل یا اس حرف کے فوراً بعد واو بطورِ حرفِ عطف ہوجیسے جان و دل۔ غم میں میم ساکن ہے مگر کسرۂ اضافت کے ساتھ متحرک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جان کا نون عام پر ساکن رہتا ہے مگر جب اس کے بعد واوِعطف آجائے تو متحرک ہو جاتا ہے۔ اردو میں ایسے مرکب الفاظ بے شمار ہیں۔
حرکات و سکنات کی مذکورہ صورتوں کو خوب سمجھ لیجئے کیونکہ عروض کی بنیاد اسی نظام پر ٹکی ہوئی ہے۔
انگریزی اور دیگر کئی زبانوں کی شاعری میں وزن کا نظام سلیلبل (syllable)پرمبنی ہے۔ سلیبل کہتے ہیں تلفظ کی اس اکائی کو جس میں ایک مصوتہ (vowel)ہو۔ انگریزی میں A,E,I,O,U اور بعض جگہ Yمصوتے ہیں۔ (Uاور Yمصمتہ یعنی consonant کا کام بھی کرتے ہیں)۔ ہر مصمتے کے ساتھ کم سے کم ایک مصوتہ ہونا چاہیئے تبھی وہ لفظ اور سلیبل بنے گا جیسے AT ایک سلیبل ہے، THAT بھی ایک ہی سلیبل ہے۔ ایک لفظ میں جتنی بار مصوتوں کی آواز سنائی دیگی اُس لفظ میں اُتنے ہی سلیبل ہونگے۔ مثلاً LIGHTER میں دو مصوتے اور دو سلیبل ہیں جبکہ FIRE میں ایک سلیبل ہے کیونکہ اِس میں I کی آواز تو سنائی دیتی ہے Eکی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مزید، اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ مصوتے مصمتوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ اِس جوڑ کے بغیرنہ لفظ بن سکتے ہیں نہ سلیبل۔ یہی سلیبلس انگریزی اور کئی دیگر یوروپی زبانوں کی نظم کے میٹر کی بنیادیں ہیں۔ اِنھی کی بو قلموں تراتیب سے آہنگ پیدا کیا جاتا ہے۔ مختلف ترتیبوں کے باضابطہ اصول بنے ہوئے ہیں۔
میں نے انگریزی کی مثال اس لئے دی ہے تاکہ اردو کے نظامِ صوت کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔ مصمتہ کو حرفِ صحیح اور مصوتہ کو حرفِ علت بھی کہتے ہیں۔ آج کل موخرالذکراصطلاحات زیادہ رائج ہیں۔ اردو میں ا،و،ی اور ے حروفِ صحیح بھی ہیں اور حروفِ علت بھی۔ باقی سارے حروف صرف حروفِ صحیح ہیں۔ حروفِ صحیح کو جوڑنے کا کام حروفِ علت کرتے ہیں۔ ا، و ، ی اور ے کے علاوہ زیر، زبر، پیش اور جزم بھی حروفِ علت کا کام دیتے ہیں حالانکہ یہ حروفِ تہجی کا حصہ نہیں ہیں۔ انھیں مجموعی طور پراعراب کہا جاتا ہے اور فرداً فرداً کَسرہ (زیر ِ حرف کے نیچے)، فَتْح (زبر َ حرف کے اوپر)، ضُمّہ (پیش ُ یہ بھی حرف کے اوپر) اور سکون (جزم ْ بھی حرف کے اوپر) کہا جاتا ہے۔ جس حرف پر اِن میں سے کوئی ایک شکل ہو یا متصور ہو تو اس حرف کو علی الترتیب مکسور، مفتوح، مضموم اور ساکن کہتے ہیں۔ اِنھی کی طرح مد بھی علامتِ حرکت ہے اور صرف الف کے ساتھ آتا ہے۔ کھڑا زبر اور کھڑا زیر بھی اعراب ہیں۔ تشدید بھی علامتِ حرکت ہے کیونکہ یہ ایک ہی بار لکھے ہوئےحرف کو دو بار ادا کرنے کا اشارہ دیتا ہے جس میں پہلا ساکن اور دوسرا متحرک ہوتا ہے جیسے قصّہ، بلّی وغیرہ۔ اِن علامتوں کے بغیر اردو میں الفاظ نہیں بن سکتے۔ یہ علامتیں در اصل حرکتیں ہیں جو حلق سے کسی رکاوٹ کے بغیر ادا ہوتی ہیں اور کسی بھی حرفِ صحیح کو حرکت دیتی ہیں۔ ا لف کو ہم اَلِف اس لئے پڑھتے ہیں کہ ا کے اوپر زبر ہے، ل کے نیچے زیر ہے اور ف ساکن ہے۔ سکون حرکت کی ضد ہے، اسی لئے عروض میں علامتوں کے اس مجموعے کو حرکات و سکنات کہتے ہیں۔ اِنھی حرکات و سکنات سے لفظوں میں زیرو بم یعنی اُتار چڑھاؤ پیدا ہوتے ہیں اور یہی زیروبم وزن کی بنیادیں ہیں۔
الف پر مد ہو یعنی آ تو الف کو کھینچ کر پڑھا جاتا ہے جیسے آج۔ اگر صرف زبر ہو یعنی اَ تو کھینچ کر نہیں پڑھا جاتا بلکہ ایک جھٹکے کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے جیسے اَب۔ جسے کھینچ کر پڑھا جائے اُسے ہجائے بلند یا ہجائے طویل کہتے ہیں اور جسے کھینچ کر نہ پڑھا جائے اُسے ہجائے کوتاہ کہتے ہیں۔ آسانی کے لئے ہم ہجائے بلند کو بڑی آواز اور ہجائے کوتاہ کو چھوٹی آواز کہہ سکتے ہیں۔
وزن میں آ دو الف کے برابر ہے یعنی اس میں دوالف یعنی دو حروف ہیں جبکہ اَ میں ایک ہی الف ہے لہٰذا اس میں ایک ہی حرف ہے۔ اَب، دِن، گُل جیسے الفاظ دو حروف سے مل کر بنے ہیں۔ چنانچہ یہ آ کے برابر ہیں، بہ الفاظِ دگر،دو حروف سے مل کر بنے ہوئے الفاظ جن کا دوسرا حرف ساکن ہو،ہجائے بلند یعنی بڑی آواز کہلاتے ہیں۔ اردو میں ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہی ہوتا ہے۔ اس میں حرکت تبھی آتی ہےجب اس حرف کے نیچے کسرۂ اضافت ہوجیسے غمِ دل یا اس حرف کے فوراً بعد واو بطورِ حرفِ عطف ہوجیسے جان و دل۔ غم میں میم ساکن ہے مگر کسرۂ اضافت کے ساتھ متحرک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جان کا نون عام پر ساکن رہتا ہے مگر جب اس کے بعد واوِعطف آجائے تو متحرک ہو جاتا ہے۔ اردو میں ایسے مرکب الفاظ بے شمار ہیں۔
حرکات و سکنات کی مذکورہ صورتوں کو خوب سمجھ لیجئے کیونکہ عروض کی بنیاد اسی نظام پر ٹکی ہوئی ہے۔
4-اصولِ سہ گانہ
اصولِ سہ گانہ یعنی تین اصول۔ علم العروض میں یہ اہم ترین باب ہے۔ جس نے یہ تین اصول سمجھ لئے اُس نے ایک بڑا پڑاؤ پار کر لیا۔ اکثر احباب اِن تین اصولوں اور تقطیع کے طریقے کو جان لیتے ہیں اور بس۔ اُن کا سارا کام اِسی سے چل جاتا ہے۔ میری صلاح ہے کہ اس باب کوانہماک اور فرصت کے ساتھ پڑھیں۔ الجھن ہونے لگے تو تھوڑی دیر رک جائیں اور پھر پڑھیں۔ کوشش یہ ہو کہ اس باب میں بیان کئے گئے اصولوں سے کما حقہ آگاہی ہو جائے۔
پچھلے باب میں ہم نے جانا کہ اب، دن، گل جیسے الفاظ دو حرفی ہوتے ہیں اور یہ بڑی آوازیں ہیں۔ یک حرفی الفاظ اردو میں تنہا نہیں ہوتے۔ یہ، یوں سمجھ لیجئے،کہ تین حرفی الفاظ کے ساتھ مل کر آتے ہیں۔ یا تو لفظ کے شروع میں یا درمیان میں یا آخر میں۔ مثال کے طور پر شَجَر۔ اس لفظ کو ہم دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں، شَ اور جَر۔ اس طرح شَ کی شکل میں ہمیں چھوٹی آواز ملتی ہے۔ ایک اور لفظ انداز کے حصے کرکے دیکھئے۔ اِس میں اَن دو حرفی ہے، زا بھی دو حرفی ہے۔ یہ دونوں دو الگ الگ بڑی آوازیں ہیں جبکہ زْ چھوٹی آواز ہے۔ لفظ کے درمیان میں چھوٹی آواز کی مثال معتکف ہے جس میں مُعْ اورکِفُ دو بڑی آوازیں اور تَ چھوٹی آواز ہے۔ اس تفصیل کی افادیت کا اندازہ آپ کو تب ہوگا جب آپ تقطیع کرنا شروع کریں گے۔ علم العروض کی کتابوں میں عموماً یہ توضیح نہیں ملیگی۔ کیونکہ یہ نصاب میں شامل نہیں ہے۔ مزید برآں تین، چار اور پانچ حرفی الفاظ کے لئے جداگانہ اصول ہیں جن کا ذکر بعد میں آرہا ہے۔ اِس توضیح سے میرا مقصد یہ ہے کہ آئندہ جو اصطلاحات پیش ہونگے وہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکیں اورتقطیع کا ایک سانچہ دماغ میں مرتب ہو جائے۔
پہلا اصول:سبب: دو حرفی لفظ یعنی بڑی آواز کواصطلاح میں سَبَب کہتے ہیں۔ سبب کی دو قسمیں ہیں
1۔ سببِ خفیف ۔
2۔ سببِ ثقیل۔
سببِ خفیف وہ دو حرفی لفظ ہے جس کا پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہو جیسے اب، دن، گل، غم وغیرہ۔
سببِ ثقیل وہ دو حرفی لفظ ہے جس کے دونوں حروف متحرک ہوں۔ اردو میں اس کی مثال کسرۂ اضافت کے ساتھ یا ترکیبی صورت ہی میں ملتی ہے کیونکہ اردو میں ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہی ہوتا ہے۔ سببِ ثقیل کی مثالیں: غمِ دل میں غَمِ یا شَہِ دیں میں شَہِ۔
دوسرا اصول: وتد: تین حرفی الفاظ وَتَد کہلاتے ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں :
1۔ وتدِ مجموع
2۔ وتدِ مفروق۔
وتدِ مجموع وہ تین حرفی لفظ ہے جس کے پہلے دو حروف متحرک ہوں اور تیسرا حرف ساکن ہوجیسے شَجَر، چمن، قلم وغیرہ۔
وتدِ مفروق اُس تین حرفی لفظ کو کہتے ہیں جس کا پہلا اور تیسرا حرف متحرک اور دوسرا یعنی درمیانی حرف ساکن ہو۔ اس کی مثال بھی اردو میں کسرۂ اضافت یا ترکیبی صورت ہی میں ملتی ہے۔ وتدِ مفروق کی مثالیں حالِ دل میں حالِ، وقتِ مقررہ میں وقتِ، دل و جگر میں دِلو وغیرہ ہیں۔
وتد کی دو اور قسمیں بھی ہیں:
- وتدِ موقوف
- وتدِ کثرت
وتدِ موقوف وہ تین حرفی لفظ ہے جس کا دوسرا اور تیسرا حرف دونوں ساکن ہوں۔ اردو میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جیسے مال، درد، اور، پھول، تیل، بیج وغیرہ۔
وتدِ کثرت اُس چار حرفی لفظ کو کہتے ہیں جس کے پہلے دو حروف متحرک اور آخری دو حروف ساکن ہوں جیسے بہار، کتاب، حریص، غروب وغیرہ۔
لیکن وتدِ موقوف اوروتدِ کثرت کا اکثر کتابوں میں ذکر نہیں ملتا کیونکہ تقطیع کرتے وقت ان کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ اوتاد، قسمِ زائد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سبب اوروتد اصولِ سہ گانہ کے دو اصول ہوئے۔ تیسرا اصول فاصلہ کہلاتا ہے۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
1۔ فاصلۂ صغریٰ
2۔ ٖفاصلۂ کبریٰ۔
فاصلۂ صغریٰ وہ چار حرفی لفظ ہے جس کے پہلے تین حروف متحرک اور چوتھا ساکن ہو۔ اردو میں اس کی مثال کم ملتی ہے جیسے عَظَمَت، بَرَکَت وغیرہ۔ مگریہ الفاظ بھی شعرمیں اکثرحرفِ ثانی کے سکون کے ساتھ ہی باندھے جاتے ہیں مثلاً ؎
شعورِآدمیت ناز کر اُس ذاتِ اقدسؐ پر
تری عظمت کا باعث ہےمحمدؐ کا بشرہونا
اس شعر میں عَظَمَتْ کو عَظْمَتْ باندھا گیا ہے۔
فاصلۂ صغریٰ دراصل سسبِ ثقیل اور سببِ خفیف کا مرکب ہے۔ سببِ ثقیل یعنی دو حرفی لفظ جس کے دونوں حروف متحرک ہوں اور سببِ خفیف یعنی دو حرفی لفظ جس کا دوسرا حرف ساکن ہو، جیسے غمِ دل۔ اِس میں غمِ سببِ ثقیل ہے اور دل سببِ خفیف۔
فاصلۂ کبریٰ وہ پانچ حرفی لفظ ہے جس کے پہلے چار حروف متحرک اور پانچواں ساکن ہو۔ اس کی مثال اردو سے نہیں دی جا سکتی۔ یہ در اصل سببِ ثقیل اور وتدِ مجموع کا مرکب ہے۔ سببِ ثقیل یعنی دو حرفی لفظ جس میں دونوں حروف متحرک ہوں اور وتدِ مجموع یعنی وہ تین حرفی لفظ جس کے پہلے دو حروف متحرک اور تیسرا ساکن ہو۔ مثال کے طور پر عربی کا لفظ لیجئے خلقکم۔ اس پانچ حرفی لفظ میں خَلَ (سببِ ثقیل) + قَکُم (وتدِ مجموع) ہے۔ اسباب، اوتاد اور فواصل، اِن سب کو مجموعی طور پر اجزائے ثانی کہا جاتا ہے۔
عروض عربی شاعری کے لئے بنا تھا۔ عربی سے اردو میں آیا ہے۔ چناچہ اس علم کےبعض اصول اردو کے مزاج سے میل نہیں کھاتے۔آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اردو اشعار کی تقطیع کے لئے سبب اور وتد ہی کافی ہیں۔ فاصلہ ضرورت سے زائد ہے۔ یہ سچ بھی ہے۔ آپ تقطیع کرنے لگیں گے تو جان جائیں گے۔
اصولِ سہ گانہ یعنی تین اصول۔ علم العروض میں یہ اہم ترین باب ہے۔ جس نے یہ تین اصول سمجھ لئے اُس نے ایک بڑا پڑاؤ پار کر لیا۔ اکثر احباب اِن تین اصولوں اور تقطیع کے طریقے کو جان لیتے ہیں اور بس۔ اُن کا سارا کام اِسی سے چل جاتا ہے۔ میری صلاح ہے کہ اس باب کوانہماک اور فرصت کے ساتھ پڑھیں۔ الجھن ہونے لگے تو تھوڑی دیر رک جائیں اور پھر پڑھیں۔ کوشش یہ ہو کہ اس باب میں بیان کئے گئے اصولوں سے کما حقہ آگاہی ہو جائے۔
پچھلے باب میں ہم نے جانا کہ اب، دن، گل جیسے الفاظ دو حرفی ہوتے ہیں اور یہ بڑی آوازیں ہیں۔ یک حرفی الفاظ اردو میں تنہا نہیں ہوتے۔ یہ، یوں سمجھ لیجئے،کہ تین حرفی الفاظ کے ساتھ مل کر آتے ہیں۔ یا تو لفظ کے شروع میں یا درمیان میں یا آخر میں۔ مثال کے طور پر شَجَر۔ اس لفظ کو ہم دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں، شَ اور جَر۔ اس طرح شَ کی شکل میں ہمیں چھوٹی آواز ملتی ہے۔ ایک اور لفظ انداز کے حصے کرکے دیکھئے۔ اِس میں اَن دو حرفی ہے، زا بھی دو حرفی ہے۔ یہ دونوں دو الگ الگ بڑی آوازیں ہیں جبکہ زْ چھوٹی آواز ہے۔ لفظ کے درمیان میں چھوٹی آواز کی مثال معتکف ہے جس میں مُعْ اورکِفُ دو بڑی آوازیں اور تَ چھوٹی آواز ہے۔ اس تفصیل کی افادیت کا اندازہ آپ کو تب ہوگا جب آپ تقطیع کرنا شروع کریں گے۔ علم العروض کی کتابوں میں عموماً یہ توضیح نہیں ملیگی۔ کیونکہ یہ نصاب میں شامل نہیں ہے۔ مزید برآں تین، چار اور پانچ حرفی الفاظ کے لئے جداگانہ اصول ہیں جن کا ذکر بعد میں آرہا ہے۔ اِس توضیح سے میرا مقصد یہ ہے کہ آئندہ جو اصطلاحات پیش ہونگے وہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکیں اورتقطیع کا ایک سانچہ دماغ میں مرتب ہو جائے۔
پہلا اصول:سبب: دو حرفی لفظ یعنی بڑی آواز کواصطلاح میں سَبَب کہتے ہیں۔ سبب کی دو قسمیں ہیں
1۔ سببِ خفیف ۔
2۔ سببِ ثقیل۔
سببِ خفیف وہ دو حرفی لفظ ہے جس کا پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہو جیسے اب، دن، گل، غم وغیرہ۔
سببِ ثقیل وہ دو حرفی لفظ ہے جس کے دونوں حروف متحرک ہوں۔ اردو میں اس کی مثال کسرۂ اضافت کے ساتھ یا ترکیبی صورت ہی میں ملتی ہے کیونکہ اردو میں ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہی ہوتا ہے۔ سببِ ثقیل کی مثالیں: غمِ دل میں غَمِ یا شَہِ دیں میں شَہِ۔
دوسرا اصول: وتد: تین حرفی الفاظ وَتَد کہلاتے ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں :
1۔ وتدِ مجموع
2۔ وتدِ مفروق۔
وتدِ مجموع وہ تین حرفی لفظ ہے جس کے پہلے دو حروف متحرک ہوں اور تیسرا حرف ساکن ہوجیسے شَجَر، چمن، قلم وغیرہ۔
وتدِ مفروق اُس تین حرفی لفظ کو کہتے ہیں جس کا پہلا اور تیسرا حرف متحرک اور دوسرا یعنی درمیانی حرف ساکن ہو۔ اس کی مثال بھی اردو میں کسرۂ اضافت یا ترکیبی صورت ہی میں ملتی ہے۔ وتدِ مفروق کی مثالیں حالِ دل میں حالِ، وقتِ مقررہ میں وقتِ، دل و جگر میں دِلو وغیرہ ہیں۔
وتد کی دو اور قسمیں بھی ہیں:
- وتدِ موقوف
- وتدِ کثرت
وتدِ موقوف وہ تین حرفی لفظ ہے جس کا دوسرا اور تیسرا حرف دونوں ساکن ہوں۔ اردو میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جیسے مال، درد، اور، پھول، تیل، بیج وغیرہ۔
وتدِ کثرت اُس چار حرفی لفظ کو کہتے ہیں جس کے پہلے دو حروف متحرک اور آخری دو حروف ساکن ہوں جیسے بہار، کتاب، حریص، غروب وغیرہ۔
لیکن وتدِ موقوف اوروتدِ کثرت کا اکثر کتابوں میں ذکر نہیں ملتا کیونکہ تقطیع کرتے وقت ان کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ اوتاد، قسمِ زائد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سبب اوروتد اصولِ سہ گانہ کے دو اصول ہوئے۔ تیسرا اصول فاصلہ کہلاتا ہے۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
1۔ فاصلۂ صغریٰ
2۔ ٖفاصلۂ کبریٰ۔
فاصلۂ صغریٰ وہ چار حرفی لفظ ہے جس کے پہلے تین حروف متحرک اور چوتھا ساکن ہو۔ اردو میں اس کی مثال کم ملتی ہے جیسے عَظَمَت، بَرَکَت وغیرہ۔ مگریہ الفاظ بھی شعرمیں اکثرحرفِ ثانی کے سکون کے ساتھ ہی باندھے جاتے ہیں مثلاً ؎
شعورِآدمیت ناز کر اُس ذاتِ اقدسؐ پر
تری عظمت کا باعث ہےمحمدؐ کا بشرہونا
اس شعر میں عَظَمَتْ کو عَظْمَتْ باندھا گیا ہے۔
فاصلۂ صغریٰ دراصل سسبِ ثقیل اور سببِ خفیف کا مرکب ہے۔ سببِ ثقیل یعنی دو حرفی لفظ جس کے دونوں حروف متحرک ہوں اور سببِ خفیف یعنی دو حرفی لفظ جس کا دوسرا حرف ساکن ہو، جیسے غمِ دل۔ اِس میں غمِ سببِ ثقیل ہے اور دل سببِ خفیف۔
فاصلۂ کبریٰ وہ پانچ حرفی لفظ ہے جس کے پہلے چار حروف متحرک اور پانچواں ساکن ہو۔ اس کی مثال اردو سے نہیں دی جا سکتی۔ یہ در اصل سببِ ثقیل اور وتدِ مجموع کا مرکب ہے۔ سببِ ثقیل یعنی دو حرفی لفظ جس میں دونوں حروف متحرک ہوں اور وتدِ مجموع یعنی وہ تین حرفی لفظ جس کے پہلے دو حروف متحرک اور تیسرا ساکن ہو۔ مثال کے طور پر عربی کا لفظ لیجئے خلقکم۔ اس پانچ حرفی لفظ میں خَلَ (سببِ ثقیل) + قَکُم (وتدِ مجموع) ہے۔ اسباب، اوتاد اور فواصل، اِن سب کو مجموعی طور پر اجزائے ثانی کہا جاتا ہے۔
عروض عربی شاعری کے لئے بنا تھا۔ عربی سے اردو میں آیا ہے۔ چناچہ اس علم کےبعض اصول اردو کے مزاج سے میل نہیں کھاتے۔آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اردو اشعار کی تقطیع کے لئے سبب اور وتد ہی کافی ہیں۔ فاصلہ ضرورت سے زائد ہے۔ یہ سچ بھی ہے۔ آپ تقطیع کرنے لگیں گے تو جان جائیں گے۔
5-ارکانِ عشرہ
اصولِ سہ گانہ میں ہم نے دیکھا کہ حروف بنیادیں ہیں اور ان کو جوڑ کر الفاظ بنائے جاتے ہیں۔ حروف جز ہیں اور الفاظ اُن کے مجموعے۔ عروض کی اصطلاح میں دو یا زیادہ حروف سے جو لفظ بنایا جاتا ہے وہ یا توسبب ہوتا ہے، وتد ہوتا ہے یا فاصلہ ہوتا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک کو رکن کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دل ایک رکن ہے۔ اسی طرح اب، دن، گل وغیرہ ارکان ہیں۔ عروض میں ان تمام حروف کی نمائندگی چند مقررہ حروف سے کی جاتی ہے، جو یہ ہیں:۔ ف،ا، ع، ل،ت، س،م، و، ن اور ی (ترتیب میری ہے)۔ مثلاً دل کی جگہ ہم فِعْ (یا فَعْ) لکھیں یا لُن لکھیں یا عی لکھیں تومطلب یہ ہے کہ یہ حروف (د) اور (ل) کے بدلے لکھے گئے ہیں۔ فع، لُن وغیرہ بھی اب، دن، گل کی طرح اسبابِ خفیف ہیں یعنی دو حرفی الفاظ جن کا دوسرا حرف ساکن ہے۔ مطلب یہ کہ فع، لُن وغیرہ اُن تمام دو حرفی الفاظ کی نمائندگی کرتے ہیں جو سببِ خفیف کی تعریف میں آتے ہیں۔ اسی طرح غمِ دل کی مثال دیکھئے۔ اس میں دل تو سببِ خفیف ہے۔ غَمِ سببِ ثقیل ہے کیونکہ اس کے دونوں حروف متحرک ہیں۔ اس کی نمائندگی عروض میں ہم کیسے کریں گے؟ فَع کا عین جوسببِ خفیف میں ساکن ہے، سببِ ثقیل میں، زیر لگانے سے متحرک ہو جائیگا یعنی فَعِ ہو جائیگا۔ اسی طرح شجر جو وتد ہے افاعیل کی زبان میں فَعَل یا عِلُن کی شکل میں گردانا جائیگا۔
بات کو میں نے کچھ زیادہ ہی کھول کر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ عام طور پرجب ارکانِ عشرہ کا ذکر مقصود ہو تو سیدھے سیدھے لکھ دیا جاتا ہے کی ارکانِ عشرہ دس ہیں اور انھی سے مختلف بحور بنائی گئی ہیں۔ میں نے ایک قدم پہلے سے شروع کیا ہے۔ میری اس تشریح کا مقصد صرف یہ سمجھانا ہے کہ ارکانِ عشرہ، مقررہ حروف کے مختلف ممکنہ مرکبات کا نام ہے۔ ممکنہ میں نے اس لئے کہا کہ حروفِ تہجی کے حروف کو لے کر جتنے مختلف الفالظ بنائے جا سکتے ہیں اُنھیں مقررہ حروف سے مبدل کرکے تقطیع کی خاطران کا قائم مقام بنایا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے معنی و مفہوم کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ صرف باٹ ہیں جو تولنے کے کام آتے ہیں۔
وہ دس ارکان جنھیں ارکانِ عشرہ کہا جاتا ہے یہ ہیں:۔
1۔ مَفَاعِیلُن
2- فاعِلاتُن
3- مُسْتَفْعِلُنْ
4- فَعُولُن
5- فاعِلُن
6۔ مفاعِلَتَنْ
7۔ مُتَفَاعِلُن
8- مفعولاتُ
9۔ فاعِ لاتن
10 - مستفعِ لُن
مشق کے لئےاِن ارکان کے اجزا کو قطع کر کے دیکھتے ہیں
آگے بڑھنے سے پہلےاصولِ سہ گانہ: سببِ خفیف، سببِ ثقیل، وتدِ مجموع، وتدِ مفروق اور فاصلہ صغریٰ و کبرٰی کی تعریفیں ذہن میں تازہ کر لیجئے- سببِ خفیف وہ دو حرفی لفظ جسکا پہلا حرف متحرک ہو۔ سببِ خفیف وہ دو حرفی لفظ جس کے دونوں حروف متحرک ہوں۔ وتدِ مجموع وہ تین حرفی لفظ جس کے پہلے دو حروف متحرک ہوں۔ وتدِ مفروق وہ تین حرفی لفظ جس کا پہلا اور تیسعا حرف متحرک ہوں ۔ فاصلۂ صغریٰ وہ چار حرفی لفظ جس کے پہلے تین حروف متحرک اور چوتھا ساکن ہو۔ فاصلۂ کبریٰ وہ پانچ حرفی لفظ جس کے پہلے چار حروف متحرک اور پانچواں ساکن ہو۔)
مفا+عی+لُن=وتدِ مجموع+سببِ خفیف+سببِ خفیف
فا+علا+تُن=سببِ خفیف+وتدِ مجموع+سببِ خفیف
مُس+تف+عِلُن=سببِ خفیف+سببِخفیف+ وتدِ مجموع
فَعُو+لُن= وتدِ مجموع+ سببِ خفیف
فا+علن= سببِ خفیف +وتدِ مجموع
مُفا+عِلَتُن= وتدِ مجموع+فاصلہ صغریٰ
مُتَفا+عِلُن=فاصلہ صغریٰ+وتدِ مجموع
مَفْ+عُو+لاتُ= سببِ خفیف+سببِ خفیف+وتدِ مفروق
فاع+لا+تُن=وتدِ مفروق+سببِ خفیف+سببِ خفیف
مُس+تَفْعِ+لُن=سببِ خفیف+وتدِ مفروق+سببِ خفیف
ارکان کی مذکورہ تقطیع پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ پہلے تین ارکان: مفاعیلن، فاعلاتن اور مستفعلن دو اسببابِ خفیف اور ایک وتدِ مجموع سے مل کر بنے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مفاعیلن میں وتدِ مجموع پہلے ہے پھراسبابِ خفیف ہیں۔ فاعلاتن میں وتدِ مجموع بیچ میں ہے اور سببِ خفیف ایک پہلے، ایک آخر میں ہے۔ مستفعلن میں پہلے اسبابِ خفیف ہیں اور آخر میں وتدِ مجموع۔
فعولن اور فاعلن سببِ خفیف اور وتدِ مجموع سے بنے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ فعولن میں وتدِ مجموع پہلے اور سببِ خفیف بعد میں ہے۔ جبکہ فاعلن میں سببِ خفیف پہلے اور وتدِ مجموع بعد میں ہے۔
متفاعلن اور مفاعلتن وتدِ مجموع اور فاصلہ صغریٰ کا مرکب ہیں۔ متفاعلن میں فاآصلہ پہلے اور وتد بعد میں ہے۔ اور مفا علتن میں وتد پہلے اور فاصلہ بعد میں ہے۔
اسی طرح فاع لاتن اور مس تفع لن اسبابِ خفیف اور وتدِ مفروق سے بنے ہیں۔ فاع لا تن میں وتدِ مفروق پہلے اور بعد میں دو اسبابِ خفیف ہیں۔ اور مس تفع لن میں دو اسبابِ خفیف کے بیچ میں وتدِ مفروق ہے۔
تشکیلِ ارکان کی تفصیل اس لئے بتادی ہے کہ ارکان اور ان کے اجزا کی ایک مکمل تصویر ذہن میں محفوظ ہو جائے۔ ورنہ جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں، تقطیع کے لئے سبب اور وتد کافی ہیں۔
اصولِ سہ گانہ میں ہم نے دیکھا کہ حروف بنیادیں ہیں اور ان کو جوڑ کر الفاظ بنائے جاتے ہیں۔ حروف جز ہیں اور الفاظ اُن کے مجموعے۔ عروض کی اصطلاح میں دو یا زیادہ حروف سے جو لفظ بنایا جاتا ہے وہ یا توسبب ہوتا ہے، وتد ہوتا ہے یا فاصلہ ہوتا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک کو رکن کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دل ایک رکن ہے۔ اسی طرح اب، دن، گل وغیرہ ارکان ہیں۔ عروض میں ان تمام حروف کی نمائندگی چند مقررہ حروف سے کی جاتی ہے، جو یہ ہیں:۔ ف،ا، ع، ل،ت، س،م، و، ن اور ی (ترتیب میری ہے)۔ مثلاً دل کی جگہ ہم فِعْ (یا فَعْ) لکھیں یا لُن لکھیں یا عی لکھیں تومطلب یہ ہے کہ یہ حروف (د) اور (ل) کے بدلے لکھے گئے ہیں۔ فع، لُن وغیرہ بھی اب، دن، گل کی طرح اسبابِ خفیف ہیں یعنی دو حرفی الفاظ جن کا دوسرا حرف ساکن ہے۔ مطلب یہ کہ فع، لُن وغیرہ اُن تمام دو حرفی الفاظ کی نمائندگی کرتے ہیں جو سببِ خفیف کی تعریف میں آتے ہیں۔ اسی طرح غمِ دل کی مثال دیکھئے۔ اس میں دل تو سببِ خفیف ہے۔ غَمِ سببِ ثقیل ہے کیونکہ اس کے دونوں حروف متحرک ہیں۔ اس کی نمائندگی عروض میں ہم کیسے کریں گے؟ فَع کا عین جوسببِ خفیف میں ساکن ہے، سببِ ثقیل میں، زیر لگانے سے متحرک ہو جائیگا یعنی فَعِ ہو جائیگا۔ اسی طرح شجر جو وتد ہے افاعیل کی زبان میں فَعَل یا عِلُن کی شکل میں گردانا جائیگا۔
بات کو میں نے کچھ زیادہ ہی کھول کر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ عام طور پرجب ارکانِ عشرہ کا ذکر مقصود ہو تو سیدھے سیدھے لکھ دیا جاتا ہے کی ارکانِ عشرہ دس ہیں اور انھی سے مختلف بحور بنائی گئی ہیں۔ میں نے ایک قدم پہلے سے شروع کیا ہے۔ میری اس تشریح کا مقصد صرف یہ سمجھانا ہے کہ ارکانِ عشرہ، مقررہ حروف کے مختلف ممکنہ مرکبات کا نام ہے۔ ممکنہ میں نے اس لئے کہا کہ حروفِ تہجی کے حروف کو لے کر جتنے مختلف الفالظ بنائے جا سکتے ہیں اُنھیں مقررہ حروف سے مبدل کرکے تقطیع کی خاطران کا قائم مقام بنایا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے معنی و مفہوم کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ صرف باٹ ہیں جو تولنے کے کام آتے ہیں۔
وہ دس ارکان جنھیں ارکانِ عشرہ کہا جاتا ہے یہ ہیں:۔
1۔ مَفَاعِیلُن
2- فاعِلاتُن
3- مُسْتَفْعِلُنْ
4- فَعُولُن
5- فاعِلُن
6۔ مفاعِلَتَنْ
7۔ مُتَفَاعِلُن
8- مفعولاتُ
9۔ فاعِ لاتن
10 - مستفعِ لُن
مشق کے لئےاِن ارکان کے اجزا کو قطع کر کے دیکھتے ہیں

مفا+عی+لُن=وتدِ مجموع+سببِ خفیف+سببِ خفیف
فا+علا+تُن=سببِ خفیف+وتدِ مجموع+سببِ خفیف
مُس+تف+عِلُن=سببِ خفیف+سببِخفیف+ وتدِ مجموع
فَعُو+لُن= وتدِ مجموع+ سببِ خفیف
فا+علن= سببِ خفیف +وتدِ مجموع
مُفا+عِلَتُن= وتدِ مجموع+فاصلہ صغریٰ
مُتَفا+عِلُن=فاصلہ صغریٰ+وتدِ مجموع
مَفْ+عُو+لاتُ= سببِ خفیف+سببِ خفیف+وتدِ مفروق
فاع+لا+تُن=وتدِ مفروق+سببِ خفیف+سببِ خفیف
مُس+تَفْعِ+لُن=سببِ خفیف+وتدِ مفروق+سببِ خفیف
ارکان کی مذکورہ تقطیع پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ پہلے تین ارکان: مفاعیلن، فاعلاتن اور مستفعلن دو اسببابِ خفیف اور ایک وتدِ مجموع سے مل کر بنے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مفاعیلن میں وتدِ مجموع پہلے ہے پھراسبابِ خفیف ہیں۔ فاعلاتن میں وتدِ مجموع بیچ میں ہے اور سببِ خفیف ایک پہلے، ایک آخر میں ہے۔ مستفعلن میں پہلے اسبابِ خفیف ہیں اور آخر میں وتدِ مجموع۔
فعولن اور فاعلن سببِ خفیف اور وتدِ مجموع سے بنے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ فعولن میں وتدِ مجموع پہلے اور سببِ خفیف بعد میں ہے۔ جبکہ فاعلن میں سببِ خفیف پہلے اور وتدِ مجموع بعد میں ہے۔
متفاعلن اور مفاعلتن وتدِ مجموع اور فاصلہ صغریٰ کا مرکب ہیں۔ متفاعلن میں فاآصلہ پہلے اور وتد بعد میں ہے۔ اور مفا علتن میں وتد پہلے اور فاصلہ بعد میں ہے۔
اسی طرح فاع لاتن اور مس تفع لن اسبابِ خفیف اور وتدِ مفروق سے بنے ہیں۔ فاع لا تن میں وتدِ مفروق پہلے اور بعد میں دو اسبابِ خفیف ہیں۔ اور مس تفع لن میں دو اسبابِ خفیف کے بیچ میں وتدِ مفروق ہے۔
تشکیلِ ارکان کی تفصیل اس لئے بتادی ہے کہ ارکان اور ان کے اجزا کی ایک مکمل تصویر ذہن میں محفوظ ہو جائے۔ ورنہ جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں، تقطیع کے لئے سبب اور وتد کافی ہیں۔
6- بحریں
میں نے کہا تھا کہ کل ملا کر اُنیس بنیادی بحریں یا بحور ہیں۔ یہ بحریں ارکانِ عشرہ ہی کے مختلف مجموعے ہیں۔ ارکانِ عشرہ کے بدون کوئی بحر نہیں بن سکتی۔ بحریا تو سالم بحر ہوگی یا مزاحف۔ مزاحف بحور کی بات ہم بعد میں کریں گے۔ فی الحال سالم بحور۔ اِن کی دو اقسام ہیں: مفرد اور مرکب۔ مفرد بحور وہ ہیں جن میں ایک ہی رکن کی تکرارہوتی ہےاورمرکب بحوروہ ہیں جو مختلف ارکان سے بنی ہیں۔
مفرد بحور تعداد میں سات ہیں۔ اُن کی تفصیل اس طرح ہے:
بحرِ ہَزَج مثمن سالم
مفاعیلُن مفاعیلُن مفاعیلُن مفاعیلُن
عربی میں آٹھ کو ثمانیہ کہتے ہیں۔ اورجو آٹھ عدد کا ہو اُسے مثمن کہتے ہیں۔ عروض میں مثمن کا مطلب ہے ہر مصرع میں چار ارکان اور شعر میں آٹھ ارکان۔ سالم کا مطلب یہ ہے کہ ارکان میں کسی قسم کی کانٹ چھانٹ یا کتربیونت نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا ہزج مثمن سالم کا مطلب ہوا کہ مفاعیلن بغیر کسی کتربیونت کے ایک مصرع میں چار بار اور شعر میں آٹھ بارآیا ہے۔ اگر چھ بار آئے یعنی ہر مصرع میں تین بارتو اسے مسدس کہیں گے اور چار بار یعنی ہر مصرع میں دو بارآئے تومربع۔ دو ارکان سے کم کی بحر نہیں ہوتی۔ یہ اور بات ہے کے شاعروں نے ایک رکن کی بحر میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
2) بحرِ رَمَل مثمن سالم
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
یہ بحر سالم شکل میں مستعمل نہیں ہے۔
3) بحرِ رَجَز مثمن سالم
مُستَفعِلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
4) بحرِ مُتَقارِب مثمن سالم
فَعُولُن فعولن فعولن فعولن
5) بحرِ مُتَدارِک مثمن سالم
فاعِلُن فاعلن فاعلن فاعلن
6) بحرِ وافِرمثمن سام
مفاعِلَتَنْ مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن
7) بحرِ کامل مثمن سالم
مُتَفاعِلُن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
مرکب بحریں بارہ ہیں۔ اِن کی افاعیل ملاحظہ فرمائیں:
بحرِ مُضارِع مثمن سالم:
مفاعیلن فاع لاتن مفاعیلن فاع لاتن
یہ بحر سالم شکل میں اردو میں استعمال نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی کرے تو اُسے ناواقف سمجھا جائیگا۔
2)بحرِ مُجْتَثْ مثمن سالم
مُسْ تَفعِ لُن فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن
یہ بحر بھی سالم استعمال نہیں کی جاتی۔
3) بحر، مُنسَرِح مثمن سالم
مُستَفعِلُن مَفْعُولاتُ مستفعلن مفعولاتُ
اس بحر کو بھی سالم نہیں برتا جاتا۔
4) بحرِ مُقتَضِب مثمن سالم
مفعولاتُ مستفعلن مفعولاتُ مستفعلن
یہ بھی سالم شکل میں مستعمل نہیں ہے۔
5) بحرِ سَرِیع مثمن سالم
مستفعلن مستفعلن مفعولاتُ
سالم شکل میں یہ بحر بھی استعمال نہیں ہوتی۔
6) بحرِ خَفِیف مثمن سالم
فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن مس تفع لن
سالم مستعمل نہیں ہے۔
7) بحرِ طویل مثمن سالم
فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن
بحرِ مدید مثمن سالم
فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن
9) بحرِ بسیط مثمن سالم
مستفعلن فاعلن مستفعلن فاعلن
10) بحرِ قریب مسدس سالم
مفاعیلن مفاعیلن فاع لاتن
یہ بحر مسدس ہے۔ اس کی مثمن شکل نہیں ہے۔ مسدس شکل بھی سالم استعمال نہیں کی جاتی۔
11)بحرِ جدید مسدس سالم
فاعلاتن فاعلاتن مس تفع لن
اس بحر کی بھی مثمن شکل نہیں ہے۔ مسدس البتہ سالم مستعمل ہے۔
12) بحرِ مَشاکِل مسدس سالم
فاع لاتن مفاعیلن مفاعیلن
اس بحر کی بھی مثمن افاعیل نہیں ہے۔ مسدس سالم استعمال کرسکتے ہیں۔
قدیم علمِ عروض کے مطابق یہی 19 بنیادی بحریں ہیں۔ جدید عروض میں چند اور بحریں بھی ملتی ہیں۔ اِن میں بحرِ جمیل مثمن سالم (مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن) قابلِ ذکر ہے۔
اس مقام پر مزید چند اصطلاحات سے واقف ہونےکی کوشش کریں گے۔ عملی طور پر تقطیع میں ان کا استعمال کم ہوتا ہے۔ مگر جان لینا بہتر ہے۔
ہم نے دیکھا کہ ہرمثمن بحر میں ارکان پہلے مصرع میں چارمرتبہ اور دوسرے مصرع میں بھی چار مرتبہ آتے ہیں۔ مسدس ہو تو تین تین بار اور اگر مربع ہو تو دو دو بار۔ مربع سے کم کی بحر نہیں ہوتی۔
پہلے مصرع کے پہلے رکن کو صدر کہتے ہیں اور آخری رکن کوعروض۔ درمیان میں جو دو ارکان آتے ہیں وہ حشْوْ کہلاتے ہیں۔ مسدس بحر میں ایک ہی حشو ہوتا ہے اور مربع بحر میں کوئی حشو نہیں ہوتا۔ دوسرے مصرع کے پہلے رکن کو ابتدا، درمیانی ارکان کو حشو، حشو اور آخری رکن کو ضَرْب کہتےہیں۔
میں نے کہا تھا کہ کل ملا کر اُنیس بنیادی بحریں یا بحور ہیں۔ یہ بحریں ارکانِ عشرہ ہی کے مختلف مجموعے ہیں۔ ارکانِ عشرہ کے بدون کوئی بحر نہیں بن سکتی۔ بحریا تو سالم بحر ہوگی یا مزاحف۔ مزاحف بحور کی بات ہم بعد میں کریں گے۔ فی الحال سالم بحور۔ اِن کی دو اقسام ہیں: مفرد اور مرکب۔ مفرد بحور وہ ہیں جن میں ایک ہی رکن کی تکرارہوتی ہےاورمرکب بحوروہ ہیں جو مختلف ارکان سے بنی ہیں۔
مفرد بحور تعداد میں سات ہیں۔ اُن کی تفصیل اس طرح ہے:
بحرِ ہَزَج مثمن سالم
مفاعیلُن مفاعیلُن مفاعیلُن مفاعیلُن
عربی میں آٹھ کو ثمانیہ کہتے ہیں۔ اورجو آٹھ عدد کا ہو اُسے مثمن کہتے ہیں۔ عروض میں مثمن کا مطلب ہے ہر مصرع میں چار ارکان اور شعر میں آٹھ ارکان۔ سالم کا مطلب یہ ہے کہ ارکان میں کسی قسم کی کانٹ چھانٹ یا کتربیونت نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا ہزج مثمن سالم کا مطلب ہوا کہ مفاعیلن بغیر کسی کتربیونت کے ایک مصرع میں چار بار اور شعر میں آٹھ بارآیا ہے۔ اگر چھ بار آئے یعنی ہر مصرع میں تین بارتو اسے مسدس کہیں گے اور چار بار یعنی ہر مصرع میں دو بارآئے تومربع۔ دو ارکان سے کم کی بحر نہیں ہوتی۔ یہ اور بات ہے کے شاعروں نے ایک رکن کی بحر میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
2) بحرِ رَمَل مثمن سالم
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
یہ بحر سالم شکل میں مستعمل نہیں ہے۔
3) بحرِ رَجَز مثمن سالم
مُستَفعِلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
4) بحرِ مُتَقارِب مثمن سالم
فَعُولُن فعولن فعولن فعولن
5) بحرِ مُتَدارِک مثمن سالم
فاعِلُن فاعلن فاعلن فاعلن
6) بحرِ وافِرمثمن سام
مفاعِلَتَنْ مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن
7) بحرِ کامل مثمن سالم
مُتَفاعِلُن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
مرکب بحریں بارہ ہیں۔ اِن کی افاعیل ملاحظہ فرمائیں:
بحرِ مُضارِع مثمن سالم:
مفاعیلن فاع لاتن مفاعیلن فاع لاتن
یہ بحر سالم شکل میں اردو میں استعمال نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی کرے تو اُسے ناواقف سمجھا جائیگا۔
2)بحرِ مُجْتَثْ مثمن سالم
مُسْ تَفعِ لُن فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن
یہ بحر بھی سالم استعمال نہیں کی جاتی۔
3) بحر، مُنسَرِح مثمن سالم
مُستَفعِلُن مَفْعُولاتُ مستفعلن مفعولاتُ
اس بحر کو بھی سالم نہیں برتا جاتا۔
4) بحرِ مُقتَضِب مثمن سالم
مفعولاتُ مستفعلن مفعولاتُ مستفعلن
یہ بھی سالم شکل میں مستعمل نہیں ہے۔
5) بحرِ سَرِیع مثمن سالم
مستفعلن مستفعلن مفعولاتُ
سالم شکل میں یہ بحر بھی استعمال نہیں ہوتی۔
6) بحرِ خَفِیف مثمن سالم
فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن مس تفع لن
سالم مستعمل نہیں ہے۔
7) بحرِ طویل مثمن سالم
فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن

فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن
9) بحرِ بسیط مثمن سالم
مستفعلن فاعلن مستفعلن فاعلن
10) بحرِ قریب مسدس سالم
مفاعیلن مفاعیلن فاع لاتن
یہ بحر مسدس ہے۔ اس کی مثمن شکل نہیں ہے۔ مسدس شکل بھی سالم استعمال نہیں کی جاتی۔
11)بحرِ جدید مسدس سالم
فاعلاتن فاعلاتن مس تفع لن
اس بحر کی بھی مثمن شکل نہیں ہے۔ مسدس البتہ سالم مستعمل ہے۔
12) بحرِ مَشاکِل مسدس سالم
فاع لاتن مفاعیلن مفاعیلن
اس بحر کی بھی مثمن افاعیل نہیں ہے۔ مسدس سالم استعمال کرسکتے ہیں۔
قدیم علمِ عروض کے مطابق یہی 19 بنیادی بحریں ہیں۔ جدید عروض میں چند اور بحریں بھی ملتی ہیں۔ اِن میں بحرِ جمیل مثمن سالم (مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن) قابلِ ذکر ہے۔
اس مقام پر مزید چند اصطلاحات سے واقف ہونےکی کوشش کریں گے۔ عملی طور پر تقطیع میں ان کا استعمال کم ہوتا ہے۔ مگر جان لینا بہتر ہے۔
ہم نے دیکھا کہ ہرمثمن بحر میں ارکان پہلے مصرع میں چارمرتبہ اور دوسرے مصرع میں بھی چار مرتبہ آتے ہیں۔ مسدس ہو تو تین تین بار اور اگر مربع ہو تو دو دو بار۔ مربع سے کم کی بحر نہیں ہوتی۔
پہلے مصرع کے پہلے رکن کو صدر کہتے ہیں اور آخری رکن کوعروض۔ درمیان میں جو دو ارکان آتے ہیں وہ حشْوْ کہلاتے ہیں۔ مسدس بحر میں ایک ہی حشو ہوتا ہے اور مربع بحر میں کوئی حشو نہیں ہوتا۔ دوسرے مصرع کے پہلے رکن کو ابتدا، درمیانی ارکان کو حشو، حشو اور آخری رکن کو ضَرْب کہتےہیں۔
7-تقطیع:کے اہم اصول::
اس باب میں ہم ان نکات کو سمجھیں گے جو تقطیع کرنے کے لئے لازم ہیں۔
الفاظ کی مکتوبی اور ملفوظی شکل::
اردو میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کی تحریری یا مکتوبی شکل ایک ہوتی ہے لیکن اس کی ملفوظی شکل دیگر، یعنی زبان سے ادا کرنے کا تلفظ الگ ہوتا ہے۔ تقطیع میں ملفوظی شکل ہی کو لیا جاتا ہے، مکتوبی شکل کو نہیں۔ مثلاً،ہم لکھتے ہیں بالکل مگر پڑھتے ہیں بِلکُل۔ تقطیع کرتے وقت اسی بلکل کو شمار کیا جاتا ہے۔ بالکل کا الف جو پڑھنے میں نہیں آتا تقطیع میں نہیں گنا جاتا ۔ اِس اصول کے پیشِ نظر، صحیح تلفظ کا جاننا بے حد اہم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مبتدی شعرا پر لازم ہے کہ وہ الفاظ کی صحیح ملفوظی شکل کو ذہن میں رکھیں۔
نونِ غنہ ::
اردو میں نونِ غنہ کا استعمال بہت ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ حروفِ تہجی میں ہے ہی نہیں۔ یہ صرف اپنے سے پہلے آنے والے حرف کی آواز کو غنائی بنا دیتا ہے یعنی ناک سے نکلی ہوئی آواز میں بدل دیتا ہے۔ عموماً الف، واو، ی اور ے کے بعد آتا ہے جیسے یہاں، چلوں، نہیں، سڑکیں وغیرہ۔ چنانچہ نونِ غنہ کو تقطیع میں گِنا نہیں جاتا۔ لہٰذا آ اور آں، خو اور خوں، کی اور کیں، ہے اور ہیں وزن میں برابر ہیں۔
نونِ غنہ لفظ کے درمیان میں بھی آتا ہے جیسے رنگ، مانگ، انک وغیرہ۔ حالانکہ ایسے الفاظ میں ن کی آواز پوری طرح سنائی نہیں دیتی جیسے رنج، بند وغیرہ میں، پھر بھی انھیں رن+گ، ما+گ، ان+ک یعنی تین حرفی الفاظ کی مانند 12 باندھا جاتا ہے۔
ہائے دو چشمی::
ہائے مخلوط یا ہا ئے دو چشمی (ھ) بھی حروفِ تہجی میں نہیں ہے۔ یہ ہ کی متبادل شکل ہے۔اور چند حروف کے ساتھ مل کر آتی ہے اور ان حروف میں ہ کی آواز ملا دیتی ہے جیسے ب+ہ= بھ ۔ عروض میں ب اور بھ کا وزن ایک ہی ہے۔ اردو میں چودہ حروف ایسے ہیں جن کے ساتھ یہ مخلوط ہوسکتا ہے۔ ان کی فہرست یوں ہے:بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ۔ یہ سارے حروف سنسکرت اور پراکرت زبانوں سے ماخوذ الفاظ میں ملیں گے۔ عربی اور فارسی میں ان کا وجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت کار آمد ثابت ہوگی:
'ہ' لفظ کے شروع میں بھی آتی ہے، درمیان میں بھی اور آخر میں بھی۔ کسی لفظ کے شروع میں آنے والی 'ہ' ہاے ہوّز کہلاتی ہے، مثلاً ہمہ، ہے، ہی وغیرہ۔ جب لفظ کے درمیان آئے اور اپنے سے پہلے اور بعد میں آنے والے حرف سے جڑی ہوئی ہو تو ہاے کہنی دار کہلاتی ہے مثلاٍ: بہت، کہن، سہم وغیرہ۔ اسی طرح کسی لفظ کے درمیان آنے والی 'ہ' اگر اس سے پہلے کے حرف سے جڑی ہوئی نہیں ہے تو وہ بھی ہاے ہوّز ہے، ہائے کہنی دار نہیں ہے، مثلا: دہلی، لاہور، وہم، رہن وغیرہ۔ لہٰذا کہنی دار 'ہ' اور ہاے ہوّز والے لفظوں کو دو چشمی "ھ" سے لکھنا بالکل غلط ہوگا، مثلا: ھم، ھوا، ھمزہ ھمیشہ، بھت، مظھر، شھر غلط املاء ہے۔ ان کی جگہ ہم، ہوا، ہمزہ، ہمیشہ، بہت، مظہر، شہر صحیح ہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ املاء غلط ہو تو تلفظ بھی غلط ہو گا اور وزن بھی بدل جائے گا۔ دو چشمی "ھ" اور ہاے کہنی دار میں فرق کرنا ضروری ہے ورنہ لفظوں کے معنی بدل جائیں گے جیسے:گھر/گہر، بھار/بہار، کھا/کہا وغیرہ۔علاوہ از ایں، ہر رسم الخط کا ایک معیار ہوتا ہے، انفرادیت و یکسانیت ہوتی ہے۔ اردو اس سے محروم نہیں رکھی جاسکتی۔
ہ جب لفظ کے آخر میں آتی ہے تو عموماً نصف ہ کی آواز دیتی ہے یعنی صاف سنائی نہیں دیتی اور کھینچ کر نہیں بلکہ ایک جھٹکے سے ادا ہوتی ہے جیسے یہ، وہ، بارہ، شیشہ، پہرہ وغیرہ۔ ایسے چند الفاظ جیسے یہ، وہ، نہ، پہ، کہ، تہ وغیرہ ضرورتِ شعری کے مدِ نظر کبھی بڑی آواز کے طور پر باندھے جاتے ہیں اور کبھی چھوٹی آواز کے طور پر۔ حالانکہ چھوٹی ٓواز ہی بہتر اور مناسب ہے۔ اللہ، لللہ، واللہ جیسے الفاظ میں ہ اگر پڑھی جائے تو گنی جاتی ہے ورنہ نہیں۔
ہ اور حروفِ علت یعنی الف، واو، ی اور ے کے گرائے جانے کو عروض میں اخفاء کہتے ہیں۔ اس کے بر خلاف کسرہ ءاضافت جیسے غمِ دل کی زیرکو ے (غمے) کی طرح کھینچ کر پڑھے جانے کواشباع کہتے ہیں۔
عربی کے مرکبات::
عربی میں حروفِ تہجی کو دو قسموں میں بانٹا گیا ہے، شمسی اور قمری۔ الشمس اور القمر پڑھئے! الشمس میں لام پڑھا نہیں جاتا، القمر میں پڑھا جاتا ہے۔ چنانچہ، وہ حروف جن کے پہلے ال کا ل نہیں پڑھا جاتا انھیں شمسی کہتے ہیں اور جن حروف سے پہلے پڑھا جاتا ہے انھیں قمری کہتے ہیں۔ مرکب الفاظ میں جہاں دو لفظوں کے بیچ میں ا اورل آتےہیں وہ اگر شمسی حروف سے پہلے آئیں تو پڑھے نہیں جاتے مثلاً شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ، عبدالصمد وغیرہ۔ لہٰذا اِن الفاظ میں ا اورل تقطیع میں شمار نہیں ہوتے۔ انھیں شمسُض ضُحا، بدرُدْ دُجا، اور عبدُصْ صَمد شمار کیا جاتا ہے۔
اسی طرح مشدّد حروف کو دو بار گنا جاتا ہے، پہلی بار ساکن اور دوسری بار متحرک جیسے ہمت (ہم+مت)، مدہم (مد+دم)، چکّر (چک+کر) وغیرہ۔
ہمزہ (ء): عموماً الفاظ کے آخر میں آتا ہے جیسے انشاء، شعراء، ابتداء وغیرہ۔ اردو میں یہ کھل کر پڑھا نہیں جاتا۔ تاہم، اگر شعر میں لکھا اور پڑھا جائے تو تقطیع میں چھوٹی آواز کے طور پر شمار ہوگا ورنہ نہیں۔
واوِ معدولہ: یعنی وہ واو جو لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا جیسے خوش، خواب، خود، خورشید وغیرہ۔ اس واو کو تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا۔
واوِملفوظہ: یا معلنہ جو پڑھا جائے جیسے خوب، خون، خود (لوہے کی ٹوپی)، خوراک وغیرہ۔ ایسا واو تقطیع میں ہمیشہ شمار ہوتا ہے۔
واوِ لین: اُس واو کو کہتے ہیں جس کے پہلے آنے والے حرف پر زبر ہوتا ہے جیسے پر تَو، ضَو، لَو وغیرہ۔ یہ واو تقطیع میں لازماً شمار ہوتا ہے۔
یائے مخلوط: یعنی وہ ی جوہندی نژاد الفاظ کے بیچ میں آتی ہے اور کھل کر پڑھی نہیں جاتی جیسے کیا (سوالیہ)، پیار، پیاس، دھیان، کیوں وغیرہ۔ ایسی ی تقطیع میں شمار نہیں کی جاتی۔
کھڑا زبر اور کھڑا زیر: جس حرف میں ہوتا ہے وہ بڑی آواز شمارہوتا ہے جیسے ادنیٰ=اد+نا۔ کھڑے زیر والے الفاظ کی مثالیں اردو میں نایاب ہیں۔ مگر عربی و فارسی الفاظ جیسے بعینیہٖ کو لکھنے کے لئے اس کی ضرورت پڑے گی۔ اور جب لکھی جائے گی تو تقطیع میں شمار ہوگی۔
جس لفظ میں تین ساکن ایک ساتھ آئیں ان میں تیسرا ساکن شمار نہیں ہوتا جیسے دوست، گوشت، پرواخت وغیرہ کی ت۔
تنوین: یعنی دو زبر، دو زیر اور دو پیش کو ن گردانا جاتا ہے۔ فوراً، تقریباً، ماہٍ، نورࣨوغیرہ کو فورن، تقریبن، ماہن، نورُن شمار کیا جاتا ہے۔
(تحریر : عبدالسلام)
علم عروض پہ مفصل اور جامع مضمون ہے۔
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت خوب بہت عمدہ سر
جواب دیںحذف کریں